#belowheader-wrapper {width:590px;margin:0 auto 10px;overflow: hidden;}

URDU


Stumble Upon Toolbar

  میری زندگی 


            
                                                                                                                                                                                         
 میں 16 اکتوبر 1978  کو پاکستان کے تیسرے بڑے شہر فیصل آباد میں پیدا ہوا۔
 ویسے تو میں والدین کا تعلق پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا  کے ایک چھوٹے 
 سے ضلع صوابی سے ہے۔ مگر میرے والد اس شہر میں ملارمت کرتے تھے۔ 
 میری پیدائیش ہسپتال کی بجائے گھر میں ہوئی تھی اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مجھے سیریبرل پالسی کی بیماری لائق




 ہوا۔ بد قسمتی سے اس وقت ہمارے 
 ملک میں اس بیماری کے بارے میں پوری طرح سے علم نہ ہونے کی وجہ سے میری بیماری بدتر ہونے لگی ۔
 کوئی ڈاکڑ اس بیماری کو پولیو بتاتا اور کوئی اس کو تشنج کہتا۔ جب میری عمر تقربیا دس ہوئی ۔
 تو میو ہسپتال لاہور کے ایک  ڈاکٹر۔ ڈاکٹر خالد جمیل نے میری رپوٹ انگلستان بھیجوا دیں۔
 وہاں سے پتا چلا کہ اس بیماری نام سیربیرل پالسی ہے۔ اس کے بعد اس بیماری کا علاج شروع ہوا۔ مگر اس وقت تک  میری دونوں ٹانگیں اور سیدھا ہاتھ 
 کے پٹھے بہت زیادہ سخت اور  جوڑ ٹیڑے ہو گئے تھے۔ 
 میں  عام بچوں کے برعکس تقریبا 12 سال کی عمر میں نارمل بچوں کے  سکول میں داخل ہوا۔ مگر بد قسمتی سے میں صرف پرائمری تک ہی تعلیم حاصل 
 کر سکا۔
  میرے والد 1994 ء میں نوکری سے ریٹائر ہوگئے ۔ میرے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی گاوں میں شفٹ ہوگئے
 اس طرح میرا تعلیمی سفر صرف 4 سال رہا۔  مگر وہ چار میری زندگی کے حسین سال تھے۔ اس وقت میں نے صحیح معنوں میں جانا کہ زندگی کتنی پیاری 
 ہوتی ہے۔ سکول میں میرے بہت سارے دوست بنائے۔ وہ روز شام کو مجھے گھر سے باہر لے جاتے اور ہم کرکٹ کھیلتے ۔ 
میں اپنی ویل چیئر پر بیٹھا بٹینگ کرتا تھا ۔ بہار کے موسم میں ہم پتنگ اڑاتے تھے ۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی
 مگر میں نہیں جانتا تھا کہ ایک مشکل ترین وقت آنے والے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قسمت پر کسی کا زور نہیں ہوتا ہے ۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 
 ان دنوں ایک ہڈیوں کے سرجرجن ڈاکٹر آفتاب احمد سے میرے والد کی ملاقات ہوئی۔ اس نے کہا کہ اس کی دونوں ٹانگوں کے پٹھوں کا آپریشن کیا جائے 
تو یہ اپنی  ٹانگوں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گا ۔ میرے والد اس کی میٹھی میٹھی باتوں میں آ گئے 
اور اپنی سارے پیسے جو ان کو اپنی ریٹائرمنٹ پر ملے تھے ۔
 وہ اس ڈاکیڑ کو دے دیے۔ میرے آپریشن کے بعد میری ٹانگوں پر پلستر چڑھا دیا گیا ۔ جو قربیا دو سال تک چڑھا رہا ۔ اور میں دو سال تک بستر پر پڑا رہا۔
 یہ میری زندگی کا اک تکلیف دہ وقت تھا۔  
کیونکہ ایک تو میں ٹانگوں پر پلستر ہونے کی وجہ سے ایک ہی پوزیشن میں لٹا رہتا تھا اور دوسرا سارا دن اکیلے 
 کمرے میں لیٹے رہینے سے میں بہت زیادہ چڑچڑا ہو گیا تھا ۔ اسی دوران میری والدہ فوت ہو گئیں ۔ اس طرح میری تنہائی اور زیادہ ہو گئی ۔
 سارا دن میں اور میری بہن گھر میں اکیلے رہتے ۔ وہ سارا دن گھر کا کام کرتی اور میں تنہا کمرے میں پڑا رہتا ۔
  میری ٹانگوں پر دو سال تک پلستر رہنے کی وجہ سے میرے سارے پٹھوں میں کیچھاو بہت بڑھ گیا اور میرے لیے نیند کرنا بھی مشکل ہو گیا۔
 مجھے نیند کی گولیاں دی جانے لگئیں ۔ یہاں تک کے میں ان گولیوں کا عادی ہو گیا۔ ان گولیوں کے بغیر میں سو نہیں سکتا تھا۔ 

  پلستر ہٹنے کے بعد میری دونوں ٹانگوں میں شدید درد ہوتا تھا۔ اس کے بعد سے لکر آجتک مجھے اپنی ٹانگوں کو سیدھا باندھنا پڑتا ہے۔
  میرے بڑے بھائی مجھکو اپنے میڈیکل سٹور پر لے جانے لگے ۔ وہاں میں نے اپنے بڑے بھائی سے حساب کتاب کرنا سکھا۔  
کچھ دنوں بعد میں اس قابل ہو گیا کہ میں اپنے بڑے بھائی کے سٹور کا حساب کتاب سبنھال سکوں۔ 
 اب میرا سارا دن مصروف گزرتا تھا۔ وہاں میں نے ایک بار پھر بہت سارے دوست بنا لیے۔ 



  ان دوستوں میں نے بہت کچھ سکھا۔ خاص کر کرامت شاہ اور ہبیب الرحمن جو میرے بہت مہربان دوست ہیں ان سے میں نے کمپیوٹر جلانا اور انگلیش
 سیکھی۔ کیونکہ میری حالت ایسی نہ تھی کہ میں کسی سکول میں یہ سب سیکھوں۔
 میرے بھائی کی شادی کے بعد میری بھابی مجھ کو پسند نہیں کرتی تھی۔ خاص کر میرے والد کی وفات کے بعد وہ پوری کوشش کرتی تھی کہ 
 مجھے کسی طرح اپنے گھر سے نکل دے۔ اسی وجہ سے میرے بڑے بھائی نے کمر درد کا بہانہ بنا کر مجھے فیصل آباد 
 دوسرے بھائیوں کے پاس بھیجنے کوشش کی ۔
  اس وقت میرے دوسرے بھائیوں کے پاس رہائش کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں تھا اور نہ ہی میری وہاں کوئی میری دیکھ بھال کرنے والا تھا۔
 کیونکہ میرا ایک بھائی کالج میں پڑھ رہا تھا اور دوسرا دوائیوں کا کاروبار کر رہا تھا۔ اس لیے وہ دونوں سارا دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ 
 جب میرے بڑے بھائی اور ان کی بیوی نے مجھے بہت تنگ کیا تو میرے بھائی امجد کو اپنا کاروبار ختم کر کے گاوں آنا پڑا میرے پاس ۔
 وہ چار سال ہم دونوں بھائیوں کے لیے بہت مشکل تھے ۔ ایک تو میرا بھائی امجد بے روزگار ہو گیا تھا۔ اور دوسرا ہماری بھابی ہم دونوں کو طرح طرح
 طریقوں سے تنگ کرتی تھی۔ کہی بار تو میرا دل خودکشی کرنے کو چاہا۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتا تھا اپنے بھائی کی اس حالت کا۔ 
  
 میرے بھائی وقار کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسے ایک اچھی ملازمت مل گئی ۔ اور اس نے کچھ مدت میں امجد  کو گاوں میں میڈیکل سٹور کھلوا دیا۔  
 میں سمجھا کہ مشکل وقت گزر گیا ہے ۔ مگر نہیں ۔ ابھی تو ایک مشکل ترین وقت آنے والا تھا۔ 
  ہوا کچھ یوں کہ میرے دونوں بائیوں کی شادی کے لیے لڑکیوں کی تلاش شروع ہوئی ۔ مگر میری بھای اپنی پوری کوشش کرتی تھی کہ میرے دونوں 
 بھائیوں کی شادی نہ ہو سکے۔ میں نہیں جانتا کہ کیوں اس کو ہم سے اتنی نفرت ہے۔  خیر میرے بھائی وقار کے لیے ایک کڑکی میری بہنوں نے پسند کی۔
 لیکن ہمارے مالی حالات ایسے نہ تھے کہ ہم دونوں بھائیوں کی شادیاں الگ الگ کرا سکیں۔ 
 اس لیے وہ دونوں اکٹھا شادی کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح کچھ بچت ہو جاتی ۔ مگر جب بھی کوئی لڑکی بھائی امجد  کے لیے پسند کرتے تو کسی نہ کسی 
 وجہ سے بات نہ بنتی اور رشتہ ختم ہو جاتا۔ خیر آخرکار ایک لڑکی جو بھائیامجد سے عمر میں بہت بڑی تھی اس کو میری بہنوں اور وقار  بھائی نے امجد 
کے لیے   پسند کر لیا ۔ مگر صرف 6 ماہ بعد ہی بھائیامجد اور اس کی بیوی میں علیحدگی ہو گئی ۔ 
 نکاح کے وقت حق مہر میں 15 تولے سوبا اور دو لاکھ روپے لکھوائے تھے مگر ہمارے پاس اتنی بڑی رقم نہیں تھی ۔ 
جب میرے بھاتی کے سسر نے بہت تنگ کیا یہاں تک کے جان سے مانے کمی کوشش بھی کی ۔ مجبورا میرے بھائی کو گاوں چھوڑنا پڑا اور ایک بار پھر 
 اپنا چلتا ہو کاروبار بند کرنا پڑا ۔ میرے بھائی امجد  فیصل آباد آ گئے اور اس طرح مجھے بھی فیصل آباد آنا پڑا ۔
  اب 4 سال سے میں ایک کمرے بند تنہا پڑا ہوں۔ 
 ایک بار پھر مجھے اپنے سارے دوستوں سے جدا ہونا پڑا اور میں ایک بار پھر ایک تنہا زندگی گزرنے پر مجبور ہو گیا ۔

 اب مجھے ہر چیز سے نفرت ہو گئی ہے۔ ہتکہ اپنے آپ سے بھی۔ پہلے میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا تھا ۔اب میں نے نماز اور دوسری عبادات بھی چھوڑ دی 
 ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ بس ہم مسلمان اندھ دیکھے سائے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ سارا دن میں یہ سوچتا ہوں
 کہ میرا ایسا کیا قصور 
 ہے جو میں ایسی بے بسی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں ۔ آپ لوگ کہیں گے کہ یہ خدا کا امتحان ہے۔ بس ہم مسلمان ایسے ہی چند جملے کہہ
 کر ہم اپنے دل  کو جھوٹی تسلی دے دیتے ہیں۔ مگر میرا دل اب ان باتوں  پر یقین نہیں کرتا۔۳۳ سال بہت بڑا عرصا ہوتا ہے۔ 
 اور چار سال سے اس کمرے کی قید ہوں ۔مجھے آٹھ نو گھنٹو تک پیشاب رکنا پڑتا ہے۔ سارا دن اس انتظار میں گزرتا ہے کہ کوئی آکر بجھے پیشاب کرا دے۔
 سارا دن بہت تکلیف میں گزرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ابھی مشانہ پھٹ جائے گا۔
  اور میں کیا لکھو ؟ بس میری یہ کہانی جو بھی پڑھے آپ سب سے میری التجا ہے کہ وہ میرے لیے موت کی دعا مانگے تاکہ اس بےغیرت 
 زندگی سے مجھے نجادت مل سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


Post Comments

News/Video

ads

extremetracking

eXTReMe Tracker

Counter

ads

Translate

Top Articles & World News

sitemap

Free Sitemap Generator
 

Copyright 2008 All Rights Reserved Revolution Two Church theme by Brian Gardner Converted into Blogger Template by Bloganol dot com